- 22 August 2022
- No Comment
- 329
اکبر کے دین الہی پر ایک نظر
ہندوستان میں مغلوں کا دور حکومت سیاسی اور مذہبی رواداری کی بنا پر یاد کیا جاتا ہے تقریباً دو سو پینتیس سالہ دور حکومت میں مغلوں نے بڑے غیر معتصبانہ انداز میں سیاست کو استوار کیا مذہبی رواداری کے حوالے سے جس بادشاہ کا نام سر فہرست ہے وہ شہنشاہ اکبر ہے۔ تاریخ دانوں نے ایسے منتخب شدہ بادشاہوں کی فہرست تیار کی ہے جن کی فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے ان کو “اعظم” یا” دی گریٹ” کہا جاتا ہے بادشاہ اکبر انہیں بادشاہوں میں سے ایک ہیں ان کو “اکبر اعظم” بھی کہا جاتا ہے۔
ابوالفتح جلال الدین محمد اکبر وہ مغل حکمران تھا جس نے اپنی مذہبی رواداری کی بنا پر رعا یا کے دلوں پر راج کیا اس کے دور میں بلا روک ٹوک ہندوستان کی رعایا اپنے مذاہب کی پیروی کرتی تھی بے شک وہ ایک بہت ہی عادل، نیک ،خدا ترس ،غیر معتصب اور رحم دل بادشاہ تھا لیکن اپنی سیاست کو مضبوط بنانے کے لیے اس نے جو مذہبی پالیسی اختیار کی اس کی وجہ سے مسلمان علماء کی نظر میں اس کی حیثیت ایک کافر سے کم نہ تھی۔علماء اسے ملحد،مرتد ،دہریہ، ان پڑھ اور بھٹکا ہوا کہتے تھے۔اکبر نے ہندوستان میں موجود تمام مذاہب کے رسوم و عقائد کو یکجا کرکےایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی جس کو “دین الہی” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس کے مطابق اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مذہب نہیں بلکہ سارے مذاہب اسی کے ہیں اور بادشاہ سایہ خدا اور زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے اس لئے وہ بھی کوئی مخصوص مذہب اختیار نہیں کرسکتا بلکہ سبھی مذاہب کا احترام بادشاہ پر فرض ہوتا ہے اکبر مسلمان ہونے کے باوجود ہندوؤں کی طرح پیشانی پر تلک لگاتا زردشتیوں کی طرح سورج کی عبادت کرتا اور سورج کے ایک ہزار ایک نام گنتا تھا ہندو مذہب کے زیر اثر اس کے دربار میں دیے جلانے کی رسم رائج تھی ۔اس نے بدھ مت اور جین مت کے تحت شکار پر پابندی لگا دی تھی اکبر نے اپنے لئے خلیفۃ الزماں کا لقب اختیار کیا اپنے نام کا خطبہ جاری کروایا اس نے متعہ کی شادی کو جائز قرار دیا ہے حالانکہ وہ سنی مسلک مسلمان تھا بسم اللہ کی جگہ اللہ اکبر استعمال کرنے کا قانون نافذ کیا سرکاری طور پر تمام مذاہب کی کتب کے تراجم کے احکامات جاری کیے چالیس ابدالوں کی اسمبلی قائم کی ریشمی کپڑے اور سونے کے زیور ات کو پہننا اور شراب پینے کو جائز قرار دے دیا گیا بارہ سال سے کم عمر بچے کے ختنہ کو ممنوع قرار دے دیا گیا احمد، محمد اور مصطفی الفاظ ناموں کے ساتھ نا شامل کرنے کا حکم دیا گیا جشن نوروز جلالی منعقد کروایا شہزادہ سلیم کی شادی نے ہندوانہ رسم ادا کی گئی اور اپنے حرم میں ہندو عورتوں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس نئے مذہب کے تحت اکبر نے جو سب سے زیادہ قبیح بدعت رائج کی وہ “سجدہ تعظیمی” تھا ۔اس کے تحت اس نے بادشاہ کو سجدہ کرنے کی ایک انوکھی رسم کا اجرا کیا۔ 1578 میں شیخ تاج الدین نے یہ سجدہ متعارف کروایا۔ ان کے مطابق شہنشاہ وقت کیونکہ خلیفۃ الزماں ہوتا ہے اور انسان کامل جو پہلے انبیاء ہوا کرتے تھے اب خلیفۃ الزماں ہیں اور وہی قبلۂ مرادات اور کعبۂ حاجات ہیں اسی لیے ان کے لیے سجدہ جائز ہے ۔سجدے کو زمین بوس کا نام دیا گیا غازی خان بدخشی نے سجدہ تعظیمی کے حق میں یہ دلیل پیش کی کہ جس طرح آدمؑ کو ملائکہ نے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے سجدہ کیا عین اسی طرح شہنشاہ وقت کو بھی سجدہ جائز ہے۔
غیر اللہ کو سجدہ کرنا قطعا حرام ہے یہ بات تمام خواص اور عوام کو معلوم ہے اس لیے بہت سارے علماء اور لوگوں نے اس پر شدید قسم کے اعتراضات کئے۔ اس کے بعد دربار عام میں اس سجدے پر پابندی لگا دی گئی اور اس کو صرف خواص کے لیے محدود کر دیا گیا اس کے علاوہ سادات اور علماء کو بھی اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ تعظیمی کی رسم خالصتا اکبر کی ایجاد کردہ نہیں تھی بلکہ اس کے خاندان میں اس کا رواج پہلے سے موجود تھا ابوالفضل کے آئین چوہتر میں یہ مرقوم ہے کہ ہمایوں کے دور میں مجلسی آداب کے طور پر سجدہ کیا جاتا تھا
اکبر کے ایجاد کردہ مذہب کو زیادہ شہرت اور مقبولیت نہ مل سکی بلکہ اس کی مخالف رد عمل کی صورت میں حضرت مجدد الف ثانی کی تحریک سامنے آئی اور عالمگیر کے دور میں ان ہی کے مسلک کو حکومت کا اصول تسلیم کر لیا گیا
اکبر نے دین الہی اپنی حکومت کو استوار کرنے کے لئے ایجاد کیا تھا یا پھر رعایا میں اپنے آپ کو مقبول بنانے کے لیے یا پھر وہ خود کو زمین پر خدا کا نائب بنانا چاہتا تھا یا چاہے اور کوئی وجہ ہو لیکن ایک بات بالکل طے ہے وہ یہ کہ اس نے کبھی جبرا کسی کو اس کا پیروکار نہیں بنایا وہ ایک غیرمعتصب شخصیت کا حامل تھا اس نے وسیع النظری سے حکومت کو استوار کیا کبھی اس دین کی تبلیغ نہیں کی مذہب یا کسی اور معاملے میں جبر و تشدد سے کام نہیں لیا اپنی رحم دلی، فراخ دلی اور مذہبی رواداری کی بنیاد پر تاریخ کے صفحات میں اس کاایک اہم مقام ہمیشہ موجود رہے گا۔