• 17 June 2022
  • 1 Comment
  • 403

پنک ٹیکس

پنک ٹیکس

 انسانی معاشرہ امتیازات اور تفرقات سے مزین ہے ہر انسان قدرتی طور پر دوسرے سے الگ ہے رنگ، زبان، نسل اور جنس کی بنیاد پر انسانی آبادی مختلف قسم کے گروہوں میں منقسم ہے انسانوں میں سب سے بڑی تفریق جنس کی بنیاد پر ہے جنس کی بنیاد پر انسان کو دو بڑے گروہوں میں منقسم کیا گیا ہے اور وہ گروہ مرداورعورت کے ہیں

 اب ظاہر سی بات ہے کہ کسی خاص گروہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اگر آپ کو کچھ افادیت ہوتی ہے تو آپ کو اس کے مصارف بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں اگر اس معاشرے میں آپ بحیثیت ایک عورت کے رہتی ہیں تو معاشی طور پر آپ کو اضافی مصارف کا سامنا کرنا پڑے گا جسے معاشیات کی زبان میں “پنک ٹیکس “کا نام دیا گیا ہے. پنک ٹیکس کو اکثر ” عورت ہونے کے مصارف”یا”خاتون صارف ہونے کے مصارف” کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے

 پنک ٹیکس کوئی ظاہری ٹیکس نہیں جو حکومت کی طرف سے عورتوں سے وصول کیا جاتا ہوں بلکہ یہ ایسی وصولی ہے جو مخصوص قسم کی اشیاؤ خدمات کے بدلے عورتوں سے اضافی طور پر وصول کی جاتی ہےاس کو عمومی الفاظ میں ” صنفی امتیازی قیمت” کہا جاتا ہے۔کنزیومر پیکجڈ گڈز (سی پی جی)بنا نے والی کمپنیاں اکثر اس قسم کے امتیاز قیمت میں ملوث ہوتی ہیں ایک ہی جیسی چیزیں لیکن قیمتوں میں واضح فرق ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ ایسی مصنوعات  جن کی خریدار صرف خواتین ہی ہوتی ہیں ان کی قیمت زیادہ وصول کی جاتی ہے۔

  پنک ٹیکس کی سب سے عمومی مثال مردانہ اور زنانہ ریزر ہیں ایک جیسے مٹیرئیل سے بنائے جانے والے زنانہ و مردانہ ریزرز کی قیمتوں میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے ۔ پرسنل کیئر کی مصنوعات جیسے کہ ڈیوڈرنٹ ،شیونگ فوم،ہیٔرریمونگ کریمز، صابن ،شیمپو  اور باڈی واش کی قیمتوں میں بھی اسی طرح کا فرق دیکھنے میں آیا ہے خواتین کے مخصوص ایام کے دنوں میں استعمال کی جانے والی مصنوعات جیسے کہ سینٹری نیپکن کی قیمتیں بھی ان پر آنے والی لاگت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے یہی حال زیر جاموں( انڈر گارمنٹس )کا ہے. زنانہ زیر جاموں کی دلکش پیکیجنگ کر کے  اس کو دگنے داموں میں فروخت کیا جاتا ہے ۔پنک ٹیکس کی واضح مثال برینڈڈ لان اور کاٹن کے ڈیزائنر ڈریس ہیں جن کے لیے خواتین جان بوجھ کر اضافی ادائیگی کے لئے تیار ہوتی ہیں۔خواتین کو اشتہار بازی کے ذریعے اس چیز کا یقین دلایا جاتا ہے کہ ان اشیاہ کو استعمال ان کی دلکشی کو بڑھا دے گا اور ان کی شخصیت کا چار چاند لگا دے گا۔

ایکس پریس ٹریبیون کے ایک آرٹیکل “کرس آف دا پنک” کے مطابق”پاکستان کے ایف ایم سی جی سیکٹر کے ایک ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ ملک میں پنک ٹیکس رائج ہے اور مقامی کاروبار منافع میں اضافے کے لیے صنفی امتیازی قیمتوں کا سہارا لیتے ہیں قیمتوں میں فرق بہت زیادہ نہیں ہوتا انہوں نے کہا زیادہ پاکستانی ایف ایم سی جی کمپنیاں ان اشیاء پر 10₨ سے 25₨ فی پروڈکٹ ٹیکس عائد کرتی ہیں جن کی قیمت 100₨ سے کم ہے۔لیکن طویل مدت میں ایک عورت کو اس سے لاکھوں کا نقصان ہو سکتا ہے”

اشیاء کے بعد اگر خدمات کا ذکر کیا جاۓ تو خواتین کو مہیا کی جانے والی خدمات جو مختلف قسم کے بیوٹی پارلراورسیلون وغیرہ میں دی جاتی ہیں ان کی قیمت بھی مرد حضرات کو مہیا کی جانے والی خدمات کی قیمتوں سے زیادہ ہیں۔ جہاں مردوں کی ہیئر کٹنگ ،مساج اور فیشل وغیرہ کے عوض سینکڑوں جب کہ  عورتوں سے انہی خدمات کے ہزاروں میں وصول کیے جاتے ہیں پاکستان کے بیشتر سیلونز اور بیوٹی پارلرز میں قیمتوں کا ہی فرق واضح ہے وہی سیلون جو کہ مردوں کی ہئرکٹنگ کے800 جبکہ عورتوں کے لیے 2000 چارج کرتے ہیں ۔

 مغربی ممالک کی بات کی جائے تو وہاں اس قسم کا امتیاز قیمت اور زیادہ ہے۔ وہاں صرف نیلے اور گلابی رنگ کے فرق سے قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے دا سٹی میگ کے ایک آرٹیکل “پنک ٹیکس ریڈ الرٹ” کے مطابق”  پارس حب نے وال مارٹ اور شاپر ڈرگ جیسی کمپنیوں کی مصنوعات کو دیکھا ان کے مطابق 2021 میں خواتین کو فروخت کیے جانے والے سو گرام ڈیوڈرنٹ کی اوسط قیمت 9.77 ڈالر ہے جبکہ ایسے ہی سو گرام مردوں کو فروخت کئے جانے والے   ڈیوڈرنٹ کی قیمت سے 6.45 ڈالر ہے یعنی ان دونوں کی قیمت میں 34 فیصد کا فرق ہے خواتین کو فروخت کئے جانے والے ریزر کی قیمت 4.99 فیصد زیادہ جب کہ باڈی واش کی قیمت میں 71۔65فیصد زیادہ ہے۔”

وہاں اس قسم کا امتیاز قیمت اور زیادہ پایا گیا۔بچوں کے کھلونوں اور کپڑوں سے لے کر ادویات اور  بیشتر خدمات جیسے ڈرائی کلین تک عورتوں کے لیے ہر چیز کا دام دگنا ہے۔خواتین کے مخصوص ایام میں استعمال ہونے والی مصنوعات جیسے سینٹری نیپکن اور ٹیمپون وغیرہ کو تعیشات کے زمرے میں ڈال کر ان کی قیمتوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔وہاں ان امتیازی قیمتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہاں تقریباً عورتیں خود کفیل اور برسر روز گار ہوتی ہیں۔

 پنک ٹیکس نے کیوں کر ترویج پائی

 اگر ہم یوں کہیں کہ پنک ٹیکس کی وجہ مرد حکمران معاشرہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایسا سماج جہاں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے وہاں صنف نازک کے دل میں ضرور یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس کو اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی اہمیت جنس مخالف کو دی جاتی ہے۔ خواتین کی اسی سوچ اور نفسیات کا فائدہ کاروباری ادارے اور وہ کمپنیاں اٹھاتی ہیں جن کا مقصد صارفین کے لیے نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے جب وہ اشتہارات کے ذریعے خواتین صارف کو اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ ان کی بنائی ہوئی مصنوعات خاص طور پر ان کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں( جو کہ خواتین  کے احساس برتری کے جذبے کی تسکین کرتی ہے) تو خواتین اس کے لئے زیادہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں۔

 صرف آپ کے لیے

 آپ نے اکثر دکانداروں کو سودے بازی کرتے ہوئے ایک جملہ دہراتے ہوئے سنا ہوگا کہ فلاں چیز پر فلاں ڈسکاؤنٹ صرف آپ کے لئے ہے۔ یہ جملہ بلاواسطہ طورپرخواتین کی نفسیات کو ٹارگٹ کرتا ہے اور وہ اصل حقیقت کا علم ہونے کے باوجود زیادہ ادائیگی کے لئے آمادہ ہو جاتی ہیں۔

 اثرات

 اگر پنک ٹیکس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ ٹیکس کے باعث خواتین جن کا تنخواہوں کا اسکیل مردوں کے مقابلے کم ہوتا ہے اور جنس کے لحاظ سے اجرت کا فرق ہر شعبے میں موجود ہیں

 دی نیوز کے آرٹیکل “د جینڈر گیپ” میں عبید خان اس بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں  آئی ایل او کی عالمی اجرت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین اوسطاً مردوں کے مقابلے 34 فی صد کم کماتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان کو طویل عرصہ میں ان اضافی ادائیگیوں کے سبب لاکھوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس ٹیکس کی وجہ سے خواتین کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اس کا سیدھا اثر یہ ہوتا ہے کہ خواتین کو اپنی ذاتی دیکھ بھال کی ضروری اشیاءوخدمات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔  خواتین کو پوری زندگی اور موت کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ وہ بروقت صنفی امتیازی قیمتوں کا بھی سامنا کر رہی ہوتی ہیں اور اجرت کے فرق کا بھی سامنا کر رہی ہوتی ہے۔

امریکن کانگریس کی جوائنٹ اکنامک کمیٹی کی طرف سے شائع کردہ ایک مضمون کا بعنوان” پنک ٹیکس” میں بتایا گیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی پورے سال میں کمائی گئی اجرتوں کا فرق 20 فیصد ہے۔  یعنی کہ تنخواہوں کا یہ فرق پورے سال میں 10500 امریکی ڈالر اور پوری زندگی میں 500000 امریکی ڈالر پر محیط ہے۔پنک ٹیکس بےشک خواتین کے ساتھ ایک قسم کی معاشی نا انصافی ہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ   کے دس ریاستوں نے خواتین کے مخصوص ایام کے لیے استعمال کی جانے والی مصنوعات سے پنک ٹیکس کو ساقط کر دیا ہے ۔ نیبراسکا،ورجینیااور الاسکا  نے  اس کو ختم کرنے کے لیے ایک  بل امریکن کانگریس میں 2016  میں متعارف کروایا تاکہ پنک ٹیکس کو قومی سطح پر ختم کیا جاسکے لیکن یہ بل پاس نہیں ہو سکا ہمارے ملک میں بھی حکومت کو چاہیے کہ پرائیویٹ چلنے والی ان فرموں اور کمپنیوں کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے جو خواتین سے متعلقہ اشیاء و خدمات کی زیادہ قیمت وصول کر رہی ہیں اور خواتین کو معاشی عدل فراہم کرے۔علاوہ ازیں صنفی بنیادوں پر جو اجرتوں کا فرق ہے اس کو بھی کم کیا جائےکیونکہ جو عورتیں برسر روزگار ہوتی ہیں وہ اپنے گھروں کی معاشی کفیل بھی ہوتی ہیں ۔اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی شامل کر لیا جاۓ تو بے جا نہ ہوگا کہ عورتوں کو روز گار کے مواقع بھی مساوی بنیادوں پر فراہم کیے جائیں۔    

Related post

Regtech The Game-Changing Tech That Could Rescue Pakistan’s Future

Regtech The Game-Changing Tech That Could Rescue Pakistan’s Future

In the heart of Pakistan, where dreams of a brighter future often collide with the harsh realities of outdated systems and…
The Future of Solar Energy? Look to Saudi Arabia

The Future of Solar Energy? Look to Saudi Arabia

Renewable energy is now at the forefront of global discussions, and Saudi Arabia is making headlines with its impressive strides in…
Breaking the Barriers: Fintech Adoption in Pakistan

Breaking the Barriers: Fintech Adoption in Pakistan

Despite the global Fintech revolution reshaping how we handle money, Pakistan’s financial future is still waiting for its game-changer. Pakistan works…

1 Comments

  • 👍

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *