• 21 August 2022
  • No Comment
  • 263

فسانے کی حقیقتAssassins

فسانے کی حقیقتAssassins

ایکشن ایڈوینچرگیم Assassin’s creed  سیریز ہے جو 2007 میں لانچ ہوئی اور اب تک اس کے متعدد ورژنز آ چکے ہیں اس کی ابتدا پرنس آف پرشیا گیم کے سیکوئیل کے طور پر ہوئی یوبی سافٹ کمپنی پرنس آف پرشیا گیم کی کامیابی کے بعد اس کا ایک سکوئیل بنانا چاہتی تھی لہٰذا ایک گیم ڈیولپمنٹ ٹیم کو اس کام کا ذمہ دیا گیا اس ٹیم کو گیم کے لئے جس قسم کے سنسنی خیز کردار کی ضرورت تھی وہ  انہیں ولادیمیر بارٹو کے ناول “الموت”سے مل گیا یہ کردار “اسیسن” کے تھے جو حقیقی دنیا میں بھی اپنا وجود رکھتے تھے۔

اسیسن کا مرکز ملک ایران تھا جس کو اس وقت فارس کہا جاتا تھا فارس کے صوبے جبال کی شمالی اور طربستان کی مغربی سرحدوں کے پہاڑوں میں قزوین کے قریب پرانے زمانے کا ایک مشہور و معروف مستحکم قلعہ تھا جس کا نام “الموت” تھا ۔الموت کے معنی ہیں عقابوں کا گھر جس پر 483 ہجری بمطابق 1090ءمیں حسن بن صباح نامی شخص نے قبضہ کر کے قرب و جوار کے علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی اس نے اپنی حکومت کو مستحکم رکھنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا جو شخص اس کی حکومت کے لیے خطرہ ثابت ہوتا وہ اس کو قتل کروا دیتا ہوں قتل کا کام سر انجام دینے کے لیے اس نے نوجوان لڑکوں کا ایک گروہ ترتیب دیا جس کا نام اس نے حشیشین رکھا ۔عربی تاریخ میں اس گروہ کو کہیں اسماعیلیہ کہیں فدایہ کہیں نزاریہ اور ملاحدہ بھی کہتے ہیں تاریخی روایات سے اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ اس گروہ کا تعلق شیعہ مسلمانوں کے اسماعیلیہ گروہ سے تھا لیکن حقیقت میں اس گروپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں تھا ان حشیشین کی وجہ سے اسماعیلیہ فرقہ کو بہت بدنام کیا گیا حسن اور اس کے جانشین جن کے نام کے ساتھ “کے” لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے کیخسرو کیقباد، کے محمد،کیومرث وغیرہ،اس قاتل گروہ کی سربراہی کرتے تھے حسن بن صبا ح اور اس کے جانشینوں نے بیانوے برس تک قلعہ الموت پر حکومت کی اور اس کے بعد 625 ہجری بمطابق1226میں تاتاریوں نے اس قلعے اور حکومت کو بالکل نیست و نابود کر دیا جس کے بعد یہ حشیشین منتشر ہو کر پوری دنیا میں پھیل گئے اور ان کا اثرورسوخ کم ہوگیا اس گروہ حشیشین کے جرائم قتل نے اسلامی ممالک میں ایک تہلکا مچا دیا تھا انہوں نے ایشیا کے بڑے بڑے بادشاہوں وزیروں اور عالموں کو طرح طرح کے دھوکوں سے قتل کیا حسن بن صباح نوجوان لڑکوں کو حشیش کا نشہ کرواکر ایک عارضی جنت کی سیر کرواتا تھا اور پھر نشے کی حالت میں ان کو وہاں سے نکال لاتا تھا اس کے بعد وہ دوبارہ اسی جنت اور نشے کی لالچ دے کر ان سے حسب منشاء قتل کرواتا تھا یہ لوگ بڑی چالاکی سےکارقتل کو سر انجام دیتے تھے ان کا ہتھیار ایک خاص قسم کا زہر آلود خنجر ہوتا تھا اگرچہ شکار خنجر کے وار سے بچ جاتا لیکن وہ زہر سے نہیں بچ سکتا اہل یورپ کو صلیبی لڑائیوں کے زمانے میں جب فلسطین میں اس گروہ سے واسطہ پڑا تو انہوں نے اسے” اسیسن “کے نام سے پکارا اور اس اسیسن کو مصدر بنا کر اس کے معنی “قاتل” کے ٹھہرائے جبکہ اس اسیسن کا اصل لفظ حشیشین یا حشیشون ہے جس کا مطلب “حشیش کھانے والوں” کے ہیں۔ ان حشیشین نے صلاح الدین ایوبی کو بھی کئی بار قتل کرنے کی کوشش کی پر ناکام ہوئے۔

گیم میں اسیسن کا کردار کو کہ حقیقی دنیا سے ہی ماخوذ ہے لیکن گیم کی کہانی حقیقی دنیا سے بالکل الگ ہے اس گیم کو اصول کے تحت بنایا گیا ہے۔ گیم میں جن مقامات کو دکھایا گیا ہے ان کا تعلق بھی حقیقی دنیا کے شہروں سے ہے گیم میں یروشلم ،اکا اور دمشق کو دکھایا گیا ہے اور اس میں یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں خصوصاً مسجد اقصی کو بھی بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے

ایشیا ،یورپ اور افریقہ کی تاریخ اس قسم کے دلچسپ افسانوی قسم کےکرداروں سے بھری پڑی ہے۔ ان کرداروں کو شائقین کے لئے گیم فلموں میں بڑی جدت سے دکھایا جاتا ہے جو کی عوام میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرتے ہیں اور ماضی کی یادیں تازہ کر دیتے ہیں۔

Related post

OpenAI can Talk but Founders can’t: Visionaries Joining Rivals

OpenAI can Talk but Founders can’t: Visionaries Joining Rivals

There’s been a lot of buzz recently about some key players at OpenAI stepping back or even joining rival companies. If…
Mastercard and MetaMask Unite: A New Era in European Crypto Payments

Mastercard and MetaMask Unite: A New Era in European…

MetaMask has launched the MetaMask Card, a new payment card developed in collaboration with Mastercard and Baanx. This card is designed…
Telegram CEO Shocking Arrest That Stunned the Tech World

Telegram CEO Shocking Arrest That Stunned the Tech World

In a surprising turn of events, Pavel Durov, the billionaire CEO and founder of Telegram, was arrested in France on Saturday.…

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *